Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر25

ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔۔ شازل نانو کے گھر نہیں آیا تھا ۔۔ہانیہ بھی اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہوگئی تھی۔۔لیکن ایک کسک جو ہر وقت اسکو اپنے دل میں محسوس ہوتی تھی۔۔۔اس کا دل چیخ چیخ کر کہتا تھا اس نے شازل کے ساتھ نہیں کیا۔۔وہ انسان اس سے کتنی محبت کرتا تھا اور اس نے۔۔۔۔سوچ کر بھی ہانیہ کا دل تڑپ اٹھتا تھا۔۔۔جھوٹا فريبی مکار دھوکے باز کیا کچھ نہیں سمجھتی تھی وہ اسے۔۔حلانکہ ان سب میں اسکا کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔ افف اللہ‎ یہ مجھ سے کیا ہوگیا۔۔۔میں نے انکی بات کیوں نہیں سنی۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ابو ایسا کریں گے۔۔۔کاش ابو آپ ایک بار سب بھول کر اپنی بیٹی کا سوچ لیتے کے میں کس کے ساتھ خوش رہتی ہوں۔۔۔ہانیہ کے آنسو اسکے رخسار بھیگو رہے تھے۔۔۔ ایکدم فون کی گھنٹی بجی۔۔۔آنسو کو بے دردی سے رگڑتے ہوۓ فون اٹھایا جس کی سکرین پر سجل کا نام چمک رہا تھا۔۔۔ہانیہ نے ایک لمبا سانس کھنچا کر خود کو نارمل کیا۔۔۔اور سجل کی کال ریسیو کی۔۔۔ طبیعت کیسی ہیں سجل۔۔۔؟؟ہانیہ نے محبت سے اسکا حال پوچھا۔۔ اب تو ٹھیک ہوں آپی۔۔۔سجل کی آواز ہلکی تھی۔۔۔ کیا مطلب۔۔؟؟ آپی اللہ‎ نے مجھے بیٹا دیا ہے۔۔۔سجل نے خوش ہوتے ہوئے بتایا۔۔۔ ماشاءالله۔۔۔کب ہوا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔سجل کی بات پر ہانیہ سب بھول کر اسے مبارک دے رہی تھی۔۔۔ خیر مبارک آپی۔۔۔کل رات ہی ایکدم خراب ہوگئی تھی۔۔۔۔اور رات ہی یہ دنیا میں آگیا۔۔۔سجل نے تفصیل بتائی۔۔۔ اچھا تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔؟؟ہانیہ نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔ جی آپی اللہ‎ کا شکر میں ٹھیک ہوں۔۔۔اور یہاں سب میرا بہت خیال رکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ آپ کب آرہی ہیں۔۔؟؟ میری جان میں صبح ہی آ رہی ہوں۔۔۔اگر رات نہ ہوتی تو میں ابھی روانہ ہوجاتی۔۔۔ آپ پلیز آجاۓ۔۔۔سجل نے التجا کی۔۔۔ ہاں میں کل تمہارے پاس ہونگی۔۔۔ہانیہ نے اسے یقین دہانی کرائی۔۔۔ ٹھیک ہے میں کل آپکا انتظار کرونگی۔۔۔اب میں فون رکھتی ہوں اللہ‎ حافظ۔۔۔۔ اللہ‎ حافظ۔۔۔


اگلے دن ہانیہ سجل کے گھر جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔۔۔۔ میں اندر آجاؤں۔۔۔؟؟نانو نے دروازے میں کھڑے ہو کر پوچھا۔۔ جی جی آجاۓ نانو۔۔۔اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔۔۔ہانیہ نے مسکراتے کہا۔۔۔ تم کہی جا رہی ہو۔۔۔؟؟نانو نے اسے تیار ہوتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔ جی نانو رات سجل کا فون آیا تھا۔۔۔اسکے گھر بیٹا ہوا ہے۔۔۔وہی دیکھنے جا رہی ہوں۔۔۔ہانیہ نے تفصیل بتائی۔۔۔ اچھا ماشااللہ۔۔۔یہ تو بہت خوشی کی خبر ہے۔۔۔اور تم نے مجھے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔۔۔آخری بات نانو نے سنجیدگی سے کہی۔۔۔ وو نانو میں۔۔۔ہانیہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کہے۔۔۔اسے واقعی نانو کو بتانا چاہیے تھا۔۔۔ اچھا خیر چھوڑو۔۔ تم کس کے ساتھ جاؤ گی۔۔۔؟؟نانو نے اسے شرمندہ ہوتے دیکھ کر بات بدلی۔۔۔ نانو ڈرائیور کے ساتھ۔۔۔ ہانیہ کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔۔تم ڈرائیور کے ساتھ سجل کے سسرال جاؤگی۔۔۔وہ لوگ کیا سوچے گئےکہ تم اتنی دور کسی اجنبی کے ساتھ آئی ہو۔۔۔۔ لیکن نانو۔۔۔اس سے پہلے ہانیہ مزید بولتی نانو نے اسکی بات کاٹی۔۔۔۔۔ میں نے کہا ہانیہ تم ڈرائیور کے ساتھ نہیں جاؤگی۔۔۔میں شازل کو فون کرتی ہوں۔۔۔وہ تمہیں لے جاۓ گا ویسے بھی آج سنڈے ہے تو وہ فری ہوگا۔۔۔ نانو مجھے ان کے ساتھ نہیں جانا۔۔۔ہانیہ شازل کا فلحال سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔لیکن دل یہی بھی چاہتا تھا کہ ایک بار اس سے مل کر اسےمعافی مانگنی چاہیے۔۔۔ ہانیہ ہر بات میں ضد نہیں کرتے۔۔۔اور ایمن ایمان کو بھی تم میرے پاس چھوڑ کر جاؤگی اتنا لمبا سفرہے بچیاں بیمار ہوجاۓ گی۔۔۔سختی سے کہتی کمرے سے چلی گئی۔۔۔ اور ہانیہ بس خاموشی سے انھیں جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔


نانو میں آپ کے کہنے پر آیا ہوں۔۔۔مجھے نہیں جانا ہانیہ کے ساتھ۔۔۔اگر مجھے پتا ہوتا کہ آپ ہانیہ کے ساتھ بھیجے رہی ہیں تو میں کبھی نہ آتا۔۔۔۔شازل کب سے ہانیہ کو اپنے ساتھ نہ لے کر جانے پر باضد تھا۔۔۔ شازل بیٹا اپنی نانو کی تو بات مان لو۔۔۔اس دن جو کچھ بھی ہوا کوئی برا خواب سمجھ کربھول جاؤ دیکھو میں نے بھی اس سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔ شازل نانو ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔۔میں نے جب سے انھیں سچائی بتائی ہے۔۔۔ان کا چہرہ تو جیسے بجھ سہ گیا ہے ۔۔۔رومان بھی اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔ شازل بینا کچھ کہے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔نانو اسے کہیں باہر آجاۓ میں گاڑی میں اسکا ویٹ کر رہا ہوں۔۔کہتے ہوئے چلا گیا۔۔۔۔۔۔ اس کے جاتے ہی نانو اور رومان مسکرا دیے۔۔۔


سجل کے گھر جاتے وقت ہانیہ اور شازل میں کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔ہانیہ بھی یہی چاہتی تھی کہ وہ ابھی کوئی بات نہ کریں۔۔۔جب تک وہ سجل سے نہیں مل لیتی۔۔۔ کچھ گھنٹوں بعد ہانیہ اور شازل سجل کے گھر پہنچ گئے۔۔۔۔ ہانیہ گاڑی سے اترنے لگی جب شازل نے اسے بتایا کہ وہ یہاں اپنے دوست سے ملنے جا رہا ہے شام کو اسے لینے آجاۓ گا۔۔۔ہانیہ نے مڑ کر اسے دیکھا اسے لگا تھا وہ بھی اسکے ساتھ سجل سے ملنے جاۓ گا۔۔۔پروہ مزید ہانیہ کو کچھ کہے چلا گیا تھا۔۔۔ سجل ہانیہ کے گھر داخل ہوئی تو سب اسے بہت اچھے سے ملے پھر سجل کی ساس اسے سجل کے کمرے میں چھوڑ کر آئی۔۔۔ ہانیہ کو دیکھتے ہی سجل کھل اٹھی۔۔۔ کیسی ہیں آپی آپ۔۔۔؟؟سجل نے اسے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم ٹھیک ہو نہ۔۔۔ جی میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔آپ اپنے بھانجے سے نہیں ملے گی۔۔۔؟؟؟ ارے کیوں نہیں ملو گی اسی سے تو ملنے آئی ہوں۔۔۔ہانیہ سجل کے بیٹے کو گود میں اٹھاتے ہوۓ بولی۔۔۔ ماشاءالله یہ تو بہت پیارا ہے سجل۔۔۔ یہ تو تم پر بلکل بھی نہیں گیا۔۔۔ہانیہ نے اسکے رخسار پر پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔ جی آپی واقعی یہ مجھ پر نہیں گیا اپنے بابا پر گیا ہے۔۔۔وہ بھی تو کتنے پیارے ہیں۔۔۔سجل نے مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں اچھا بتاؤ۔۔۔کیا نام رکھا میرے شہزادے کا۔۔۔ آپی زارون نام رکھا ہے حسن نے۔۔۔ بہت پیارا نام ہے۔۔۔ ابھی وہ باتیں ہی کر رہیں تھیں کہ سجل کی ساس بڑے بڑے شوپنگ بیگز لے کر اندر داخل ہوئی۔۔۔ امی یہ اتنا سامان کون لایا ہے۔۔۔انکو بیگز صوفے پر رکھتے دیکھ کر سجل نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔ ہانیہ لائی ہے۔۔۔انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا۔۔اورکمرے سے چلی گئی۔۔۔ آپی اس سب کی کیا ضرورت تھی۔۔؟؟ کیوں ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔ جب سے تم نے بتایا تھا کہ تمہاری ڈلیوری کے دن قریب ہے تب ہی میں نے شوپنگ کرلی تھی اس کی۔۔۔اور یہ پیسے۔۔۔ہانیہ نے پرس سے پیسے نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمائے۔۔۔ پر کس چیز کے۔۔۔؟؟سجل نے سوالیہ نظرو سے اسے دیکھا۔۔۔۔ کچھ زارون کی منہ دیکھائی۔۔۔اور باقی وہ جو مشکل وقت میں تم نے دیے تھے۔۔۔سجل آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ صرف اور صرف تمہاری وجہ سے ہوں۔۔۔ کیا ہوگیا ہے آپی۔۔۔آج آپ جو کچھ ہیں اپنی وجہ سے ہیں۔۔ میں نے تو آپ کو سمجھایا تھا۔۔۔عمل تو آپ نے کیا نہ۔۔۔ لیکن پھر بھی سجل۔۔۔ آپی آپ کو ایک بات بتاؤں۔۔۔ ہممم۔۔۔ہانیہ اسکی طرف دیکھا۔۔۔ حسن کی کزن تھی جسے میری شادی کے کچھ عرصے بعد طلاق ہوگئی۔۔۔ان کے چار بچے تھے۔۔۔عدت کے بعد سےہی انہوں نے جاب ڈھونڈنا شروع کر دی۔۔۔حسن کے خاندان والو نے اسے بہت برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔۔۔کہ اسے تو طلاق کا کوئی دکھ ہی نہیں ہے یہ ایسی ہے ویسی ہے۔۔۔بہت کچھ جو شاید ہر طلاق یافتہ لڑکی کو سننا پڑتا ہے۔۔۔پر اسے لوگو کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔اس سے جب میری بات ہوئی تو مجھے کہنے لگی بتاؤ سجل اگر دکھ مناتی رہی تو میری اولاد تو بھوکی مر جاۓ گی۔۔۔یہ لوگ جو آج باتیں کر رہے ہیں نہ یہ چاہتے ہیں کہ میں اور میری اولاد انکی محتاج ہوکر ره جاۓ اور میں ایسا ہونے نہیں دونگی۔۔۔آپی وہ مجھے کہنے لگی پندرہ سال میں اس انسان کے ساتھ رہی چار بچے ہیں ہمارے۔۔۔ پر پھر بھی ایک پل نہیں لگایا مجھے طلاق دینے میں۔۔۔وہ بولتے ہوۓ زاروقطار روئے بھی جا رہی تھی۔۔۔تب مجھے لگا عورت کو طلاق کے بعد اتنا مضبوط بننا چاہئے کہ وہ اور اسکی اولاد کسی کی محتاج نہ ہو۔۔۔۔کل جب اولاد جوان ہو تو فخر سے یہ کہہ سکے ہماری ماں نے ہمیں باپ بن کر ہماری ہر ضرورت کو اچھے سے پورا کیا ہے۔۔۔ہمیں کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا نہیں بنایا۔۔۔بلکہ دوسروں کو دینے والا بنایا ہے۔۔۔۔ ہانیہ خاموشی سے سجل کی بات سن رہی تھی۔۔۔اسے لگا تھا کہ آج وہ اپنے سے کئی سال بڑی عورت سے بات کر رہی ہے۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو سجل۔۔۔جب چچی سے ایمن ایمان کے لیے کچھ لانے کے لیے پیسے مانگتی تھی نہ سو سو باتیں سننے کو ملتی تھی۔۔۔اور آج میری بیٹیاں کچھ بھی فرمائش کرتی ہیں۔۔۔ وہ میں خوشی خوشی پوری کرتی ہوں۔۔کیونکہ مجھے پتا ہے مجھے کسی سے مانگنے کے لیے جانا نہیں پڑے گا۔۔۔ اچھا چلے چھوڑے ہم بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے۔۔۔۔چلے کھانا لگ گیا ہوگا چل کر وہ کھاتے ہیں۔۔۔سجل جانتی تھی وہ پھر سے ماضی کو یاد کر کے دکھی ہو جاۓ گی۔۔اس لیے بات بدلی۔۔ سجل مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے۔۔۔ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔۔۔ جی آپی کہیں میں سن رہی ہوں۔۔۔ سجل وہ مجھے۔۔۔؟؟ہانیہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کیسے حقیقت بتائیں۔۔۔ کیا ہوا آپی۔۔؟؟سجل نےسوالیہ نظرو سے اسے دیکھا۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔۔چلو آؤ کھانا کھانے چلتے ہیں۔۔۔ہانیہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس دن کے بارے میں سجل کو کچھ بتائے۔۔۔ جی۔۔۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔اور ہانیہ بھی اسی کے ساتھ ہولی۔۔۔۔

   0
0 Comments